واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

  

حضرت شاہ کمال کتھیلی

رحمتہ اللہ علیہ

 

حضرت شاہ کمال  رحمتہ اللہ علیہ    ۸۹۵ ہجری بروز جمعتہ المبارک حاجی حافظ سید عمر کےگھر مشرقی بغداد میں پیدا ہوئی۔ سید عمر طب و حدیث‘ فقہ‘ اصول معقول و منقول میں یکتائےروزگار تھے۔ آپ دقیق سےدقیق مسئلہ لمحوں میں حل کر لیا کرتےسید عمر کا سلسلہ نسب سیدناحضرت عمر فاروق سےملتا ہے۔شاہ فیضل قادری سید عمر کےبزرگ تھےانہوں نےشاہ کمال کی پیدائش سےکافی مدت پہلےسید عمر کو ایک نامی گرامی فرزند کی بشارت دی تھی جس کا ولایت میں اعلیٰ مقام ہو گا جو وحید العصر ہو گا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

جب شاہ کمال کی ولادت ہو گئی‘ تو شاہ فیضل قادری تشریف لائےاور بچےکو گود میں لےکر فرمایا کہ یہ بچہ حضرت قبلہ غوث اعظم کی اس پیشین گوئی کی ہوبہو اور جیتی جاگتی تصویر ہو گا جو سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہے۔ انہوں نےسید عمر کو شاہ کمال    رحمتہ اللہ علیہ   کی خصوصی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کی ہدایت فرمائی۔روایت کےمطابق جب آپ   رحمتہ اللہ علیہ   کی ابتدائی تعلیم شروع ہوئی تو آپ پڑھتےپڑھتےکھو جاتےتھےپھر جب انہوں نےاپنےسبق میں یہ پڑھا کہ ”زمین کی سیر کرو اور قدرت الٰہیہ کےنشان دیکھو“ تو ان کی دنیا ہی بدل گئی۔ انہوں نےاکثر اوقات گھر سےباہر رہنا شروع کر دیا۔ شہر کےساتھ مضافات میں صحراءنوردی شروع کر دی۔ والدین بہت پریشان ہوئےمگر جب بھی وہ اپنےبیٹےکو سمجھانےلگتےتو ان کی قوتِ گویائی سلب ہو جاتی۔

ایک مرتبہ آپ   رحمتہ اللہ علیہ    کئی روز تک گھر سےغائب ہو گئےاس طرح اچانک چلےجانےسےوالدہ بہت پریشان ہوئیں کئی دن انتظار کیا لیکن جب اضطراب ناقابلِ برداشت ہو گیا تو خاوند سےگزارش کی کہ بیٹےکو کہیں سے بھی  ڈھونڈکر لائیں۔ والد اپنی نامعلوم منزل کی طرف روانہ تو ہو گئےلیکن ان کو روانہ ہوتےوقت نہ اندازہ تھا کہ شاہ کمال  رحمتہ اللہ علیہ    کہاں اور کس طرف ہوں گےایک عزم کےساتھ شہر سےباہر نکل کر ایک طرف کو چل پڑےکچھ سفر طےکیا ہو گا کہ جنگل کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ چلتےچلتےویرانوں میں پہنچ گئےانہوں نےکئی مرتبہ واپس جانےکا ارادہ کیا لیکن ہر بار دل میں خیال ابھرتا کہ شاہ کمال کی والدہ کو کیا جواب دوں گا۔ یہ سوچ کر آپ منزل بہ منزل آگےبڑھتےگئی۔ ایک جگہ پہنچ کرآپ کےقدم خودبخود رک گئی۔ ایک بہت بڑےدرخت کےوسیع تنےسےٹیک لگائےشاہ کمال   رحمتہ اللہ علیہ   استراحت فرما رہےتھی۔ بیٹےکو دیکھ کر والد کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی۔ دل کی دھڑکنیں بےترتیب ہونےلگیں وہ لپکےاور بیٹےکو سینےسےلگانےکیلئےآگےبڑھےیکایک ایک دیوہیکل جیتےجیسا جانور سامنےآگیا۔ جس کی نظریں شعلہ آگیں تھیں اور مسلسل سید عمر پر گڑھی ہوئی تھیں۔ سید عمر کےقدم رک گئےاور وہ جانور کےخوف سےپیچھےہٹنےلگی۔ پھر خیال آیا مبادا یہ درندہ شاہ کمال کو کوئی نقصان نہ پہنچا دی۔ اس خیال سےوہ دوبارہ آگےبڑھےمگر وہ درندہ دوبارہ مزاحم ہوا اور اپنےسر کو شاہ کمال  رحمتہ اللہ علیہ    کےپاؤں میں رکھ کر لیٹ گیا۔

 اس عقیدت مندی کو دیکھ کر سید عمر واپس لوٹے۔ ان کا دل مسرور ہو گیا ان کو شاہ فیضل قادری   رحمتہ اللہ علیہ    کی بات یاد آگئی کہ شاہ کمال  رحمتہ اللہ علیہ   ‘ ولایت کےچرخ ہفت میں پر راج کرےگا۔آپ  رحمتہ اللہ علیہ      کے والد گرامی واپس لوٹے‘ بیوی کو سارا قصہ سنایا وہ کچھ آرزدہ ہوئیں لیکن دل میں اطمینان پیدا ہو گیا کہ ان کا فرزند دل بند مشائخ کبار میں شامل ہو گیا۔ آنکھوں میں آنسو رواں تھےمفارقت کا صدمہ اور بلند مرتبےکی خوشی مل جل کر آنکھوں میں سما گئےتھےکئی روز گزر گئےایک روز اچانک شاہ کمال  رحمتہ اللہ علیہ    گھر واپس آگئے۔ ادھر شاہ کمال نےگھر میں قدم رکھا ادھر حضرت شاہ فیضل قادری   رحمتہ اللہ علیہ   کی تشریف آوری ہوئی۔ سید عمر نےشاہ فیضل قادری  رحمتہ اللہ علیہ    سےگزارش کی کہ حضرت شاہ کمال  رحمتہ اللہ علیہ    کی تربیت آپ ہی فرمائیےیہ کام ہم جیسوں کےبس کی بات نہیں۔ آپ ان کو شاگردی اور مریدی میں قبول فرمائیے۔

شاہ صاحب  رحمتہ اللہ علیہ    گویا اسی انتظار میں تھےاس طرح شاہ کمال   رحمتہ اللہ علیہ   کو سلوک و تصوف کےمدرسہ میں داخلہ مل گیا۔ اور یوں حضرت غوث اعظم   رحمتہ اللہ علیہ   سےبراہِ راست فیض حاصل کر کےشاہ کمال نےدرجہ کمال پایا حضرت غوث اعظم  رحمتہ اللہ علیہ    کا خرقہ خلافت ان کےصاحبزادےعبدالرزاق  رحمتہ اللہ علیہ    کی وساطت سےمختلف سلسلہ سےہوتا ہوا حضرت شاہ کمال  رحمتہ اللہ علیہ    تک پہنچا اور بعدازاں میں یہی خرقہ خلافت امام رباّنی مجدد الف ثانی   رحمتہ اللہ علیہ   کو عطا ہوا۔شاہ کمال  رحمتہ اللہ علیہ    حضرت شاہ فیضل قادری  رحمتہ اللہ علیہ    کےہمراہ طویل سیاحت پر روانہ ہو گئے۔ سلوک و معرفت کی جملہ منازل طےکرتےہوئےکئی مرتبہ اکٹھےحج ادا کیا اور شاہ فیضل  رحمتہ اللہ علیہ    کی تربیت عطا ہوئی۔ چنانچہ اتوار کےدن ۹۲۰ ہجری کو شاہ فیضل قادری  رحمتہ اللہ علیہ    نےآپ کو مسند خلافت سےسرفراز فرما کر ہندوستان روانگی کا حکم دیا۔

مشرقی پنجاب کےضلع کرنال کی ایک تحصیل کتھیل ہی‘ جو دہلی سے۱۲۴ میل کےفاصلہ پر واقع ہے۔ سنکسرت میں کیس بندر کو اور تھل رہنےکی جگہ کو کہا جاتا ہےکتھیل کا پرانا نام اسی وجہ سےکیس تھل تھا جو امتدادِ زمانہ کی وجہ سےکتھیل ہو گیا۔ یہ علاقہ ہندوئوں کا گڑھ تھا۔ کتھیل میں سلطان شمس الدین التمش کی بیٹی رضیہ سلطانہ بھی مدفون ہی۔ہندو لوگوں کا خیال ہےکہ کتھیل کو ہنومان نےآباد کیا تھا کیونکہ اس جگہ ہندوئوں کی اکثریت تھی۔ استھان انجنی بھی یہیں پر واقع ہےیہ ایک مندر ہےجو ہنومان کی ماں کےنام سےمنسوب ہے۔

کتھیل میں ایک تالاب کےکنارےایک ہندو فقیر رہتا تھا جس کا نام باواستیل داس تھا۔ اس کا کام لوگوں کو عجیب و غریب شعبدےدکھانا تھا وہ اپنےپیٹ سےاپنی انتڑیاں باہر نکال لیتا اور پھر ان کو دوبارہ پیٹ میں ڈال دیتا۔ لوگوں میں یہ کرشمہ خوش فہمی اور خوش عقیدگی کا باعث بن چکا تھا لوگ دوردراز سےستیل داس درشن کو آتےاور عجیب و غریب تماشےدیکھتے۔ تماشا کوئی بھی ہو وہ لوگوں کی نظروں کا مرکز بنا رہتا تھااور پھر حیرت انگیز تماشےتو خواہ مخواہ ہی لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتےتھے۔ حضرت شاہ کمال کتھیل کےویرانےسےگزر رہےتھےکہ آپ نےلوگوں کا ہجوم دیکھا۔ آپ بھی متجسس ہو کر آگےبڑھےاور ستیل داس کو اپنی انتڑیاں نکال کر صاف کرتےدیکھا۔ آپ نےاس ہندو فقیر کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ ایسا کرنےسےتمہاری صفائی قلب تو ممکن نہیں اور اگر حصول یابی شہرت مطلوب ہےتو خیر اور بات ہی۔ یہ کہہ کر شاہ کمال آگےروانہ ہو گئےمگر ستیل داس کی صورتحال عجیب ہو گئی۔ حسب معمول جب وہ اپنی انتڑیاں دوبارہ پیٹ میں رکھنےکی کوشش کرتا وہ واپس نہ جاتیں۔ اس نےمتعدد بار یہ عمل دہرایا مگر بےسود‘ اچانک اس کا خیال شاہ کمال کےجملوں کی طرف گیا۔ اس نےفوراً ہجوم سےمخاطب ہو کر دریافت کیا کہ وہ شخص کون تھےجنہوں نےکلماتِ تنقیدی میری ریاضت سےمتعلق کہےتھی۔ لوگوں نےکہا گرو بابا وہ مسلمانوں کےکوئی بزرگ تھے۔

ستیل داس کی بات سےبہت لوگوں نےشاہ کمال کےمتعلق سوچا اور ان کی بزرگی دھیرےاور دھیمےانداز سےان کےدلوں میں اتر گئی۔ بعض نےستیل داس سےسوال کیا کہ وہ بزرگ کیا تم سےزیادہ صاحب کرامت  ہیں۔ ہندو فقیر نےکہا اس شخص نےمجھےناکام کر دیا ہے۔ ان کی نظر بڑی پراثر ہےمَیں بلاتامل اعتراف کرتا ہوں کہ مَیں ان جیسےولی کامل سےکسی طرح مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مجھےان تک پہنچائو ورنہ میرا زندہ رہنا محال ہو جائے گا۔ اس فقیر کو اٹھا کر حضرت شاہ کمال  رحمتہ اللہ علیہ    کی اقامت گاہ پر لایا گیا۔ وہ اپنی آنتوں کو دونوں ہاتھوں سےتھام کر آہ وزاری کر رہا تھا۔ حضرت شاہ کمال   رحمتہ اللہ علیہ   نےجب دیکھا تو فرمایا کہ تماشا تو بہت دکھا لیتےہو لیکن اپنا علاج نہیں کر سکتے۔ ایسا کہنا تھا کہ آنتیں خودبخود پیٹ میں چلی گئیں۔ اسی اثنا میں ستیل داس حضرت شاہ کمال کےقدموں میں گر پڑا اور گڑگڑا کر درخواست کرنےلگا کہ اب اس کےمسیحا‘ آپ ہی ہیں۔ آپ کےعلاج سےہی صحت یابی ممکن ہی۔ شاہ کمال  رحمتہ اللہ علیہ    نےاس کی چھاتی پر اپنا دست شفقت پھیرا۔ گویا اس کی دنیا ہی بدل گئی۔ وہ مسلمان ہو گیا او رشب و روز آپ کی خدمت میں گزارنےلگا اور روحانیت  میں اتنی ترقی کر گیا کہ ایک روز حضرت شاہ کمال سےاس نےخرقہ خلافت بھی حاصل کر لیا۔

حضرت شاہ کمال عموماً سرخ لباس میں ملبوس ہوا کرتےتھے۔ بسا اوقات فوجی وردی بھی پہن لیا کرتےتھے۔ اس کےعلاوہ آپ نےتیسرا رنگ نہ استعمال کیا تھا۔ آپ کےسرخ لباس پر بعض اوقات معترضین انگشت نمائی کرنےکی کوشش کرتےلیکن منہ پر گویائی کی قوت سلب ہو جاتی۔ ایک دفعہ آ پکو سفید لباس پیش کیا گیا آپ اس کوشش کا مطلب سمجھ گئےمگر سکوت فرمایا اور لباس پہن لیا۔ اب لوگوں کو تشفی ہوئی کہ حضرت نےلباس میں تبدیلی منظور کر لی ہی۔ چنانچہ وہ خوش ہو گئےمگر کچھ دیر بعد ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ سفید لباس ازخود سرخ رنگ میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا اور تھوڑی ہی دیر میں مکمل سرخ ہو گیا۔ لوگوں کو معلوم ہوا کہ اس سرخ لباس میں شاہ کمال کی مرضی نہیں شامل بلکہ یہ مشیت ایزدی ہی۔ اس کےبعد آپ کا نام ہی لال رومال پڑ لیا۔ فرمایا کرتےتھےکہ ہمیں اپنےمعاملات پر کوئی اختیار نہیں۔

ایک دن آپ فوجی وردی پہن کر گھوڑےپر سوار‘ تھانیسر کےمشہور بزرگ جو ایک سرائےمیں مقیم تھےان کی ملاقات کو گئےبزرگ شیخ جلال الدین  رحمتہ اللہ علیہ    کےنام سےمشہور تھےسرائےکےدروازےپر آپ گھوڑےسے اترےاور سرائےکی مالکہ سےکہا کہ ہمارےآنےتک ہمارےگھوڑےکی نگرانی کرو۔ وہ بڑی سخت گیر خاتون تھی جواباً نہایت تندخوئی سےبولی کہ شیخ جلال الدین  رحمتہ اللہ علیہ    کی ملاقات کو دن میں بیسیوں لوگ آتےہیں اب میں کس کس کی چوکیداری کروں۔ اس پر شاہ کمال  رحمتہ اللہ علیہ    کو جلال آگیا آپ نےایک کوڑا اس کو رسید کیا اور گھوڑےکو چھوڑ کر شیخ جلال الدین  رحمتہ اللہ علیہ    کےپاس پہنچ گئے۔ شیخ    رحمتہ اللہ علیہ   نےآپ کو ایک فوجی سمجھا اور بادشاہ کا ایلچی خیال کر کےآپ کو اٹھ کر سلام کیا اور بادشاہ کی خیریت دریافت کی آپ نےفرمایا درویشوں کو شہنشاہوں سےکیا واسطہ آپ بادشاہ سےبہت مرعوب نظر آتےہیں۔ شیخ جلال الدین   رحمتہ اللہ علیہ    ‘مروتِ مہمانی سےخاموش رہے۔

شاہ کمال نےان سےکہا کہ میں ایک دقیقی مسئلہ تصوف لایا ہوں‘ اس کا حل مجھےدرکار ہے‘ مسئلہ سن کر شیخ جلال سکتےمیں آگئےاور کہنےلگےآپ فوجی ہیں آپ تصوف کی پیچ دار باتوں سےدور ہی رہیں تو بہتر ہےشاہ کمال    رحمتہ اللہ علیہ   نےفرمایا کہ کیا تصوف کےدروازےفوجیوں پر بند ہوتےہیں؟ شیخ جلال الدین   رحمتہ اللہ علیہ    لاجواب ہو کر بولےآپ کا مسئلہ دقیق اور تادیر بیان کئےجانےکا متقاضی ہی۔ لہٰذا آپ پھر کسی وقت تشریف لائیں جب یہاں کوئی اور نہ ہو۔ شاہ کمال   رحمتہ اللہ علیہ    نےپھر کہا کہ اگر اس مسئلہ کو سب کےسامنےہی حل کر دیا جائےتو کیا حرج ہی۔ شیخ جلال الدین   رحمتہ اللہ علیہ   نےقدرےتحمل سے فرمایا یہ مسئلہ اس قسم کا ہےکہ مجلس میں موجود افراد کی سمجھ سےبالاتر ہےلہٰذا آپ خلوت میں تشریف لاویں۔ آپ نےپھر فرمایا کہ اگر مسئلہ مجلس میں حاضرین کی فہم سےبالا ہےتو آپ اس محفل کو خلوت ہی سمجھیں۔ اب شیخ جلال الدین   رحمتہ اللہ علیہ    لاجواب ہو گئےاور خاموشی اختیار کئےرکھی شاہ کمال   رحمتہ اللہ علیہ   سمجھ گئےکہ شیخ کےپاس یا کوئی جواب نہیں یا بخل سےکام لےرہےہیں۔

آپ  رحمتہ اللہ علیہ    ناراض ہو کر واپس لوٹے۔ سرائےکےدروازےپر مالکہ خاتون کو گھوڑےکی گرتی ہوئےپایا۔ آپ کو دیکھتےہی وہ آپ کی قدم بوسی کرنےلگی لوگوں نےعورت سےکہا کہ اس شخص نےتمہیں کوڑا مارا ہےاورتم بجائےکوئی جوابی کارروائی کرنےکےالٹا اس کی قدم بوسی کر رہی ہو۔ اس خاتون نےجواب دیا کہ کوڑےکی ایک ضرب نےمجھےاسرار ورموز کی پہچان کرا دی۔ میری دنیا بدل چکی ہی‘ یوں لگتا ہےمجھ پر انوار کی بارش ہو رہی ہےآپ نےاپنا گھوڑا لیا اور اس خاتون کو اسی حالت میں چھوڑ کر چلےگئی۔ راستےمیں آپ نےجلال الدین    رحمتہ اللہ علیہ   کو اپنےپیچھے آتے ہوئےپایا۔ ان کےساتھ مشہور بزرگ شیخ عبدالاحد  رحمتہ اللہ علیہ    بھی تھےدونوں نےآپ سےمعذرت کی اور عرض کی حضرت ہم آپ سےناواقف تھےاور تقصیر کےمرتکب ٹھہرےآپ نےان کو معاف کر دیا۔ وہ واپس چلےگئےمگر شیخ عبدالاحد   رحمتہ اللہ علیہ    نےآپ کا دامن نہ چھوڑا۔ انہی دنوں شیخ عبدالاحد  رحمتہ اللہ علیہ    نےعالم خواب میں دیکھا کہ ایک نورانی شکل کےبزرگ کفاراور ظالم لوگوں کو قتل کر رہےہیں اور حق کی آمد کی صدا بلند کر رہےہیں۔ آپ نےیہ خواب حضرت شاہ کمال  رحمتہ اللہ علیہ    کو بیان کیا آپ نےفرمایا۔ عبدالاحد  رحمتہ اللہ علیہ    تمہارےیہاں ایک فرزند پیدا ہو گا جو مرتبےمیں اولیاءکرام کا ہم پلہ ہو گا۔ اس کےنور سےشرک و بدعت کی تاریکی ختم ہو گی اور اسلام کو تابانی اور روشنی میسر آئےگی لہٰذا بچےکی ولادت کےبعد سب سےپہلےاس کو ہمارےپاس لانا۔

ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا ہو گا کہ شیخ عبدالاحد  رحمتہ اللہ علیہ    کےگھر بچہ پیدا ہوا۔ آپ بحکم جب اس کو حضرت شاہ کمال کی خدمت میں لےکر حاضر ہو گئےشاہ کمال نےکیمیائی نظریں نومولود پر مرکوز کر دیں اور انگشت شہادت بچے کےمنہ میں دےدی اور فرمایا یہ بچہ تجدیددین اور روحانی فیض خلق خدا کو پہنچانےکیلئےپیدا کیا گیا ہی۔ نومولود کافی دیر تک شاہ کمال کی انگلی چوستا رہا۔ حتیٰ کہ شاہ کمال بولے! بس کر بیٹا کچھ ہماری نسل کیلئےبھی رہنےدےتونےتو ہماری نسبت لےلی ہے۔ یہی وہ بچہ تھا جو بعد میں مجدد الف ثانی کہلائےاور جنہوں نےعہدساز اور جلیل القدر بادشاہ کو اپنےآگےسرنگوں کر لیا۔

ایک مرتبہ شاہ کمال   رحمتہ اللہ علیہ   کسی صحراءسےگزر رہےتھےکہ آپ نےایک چرواہےکو دیکھا جو درختوں کے پتے اپنی بکریوں کو کھلا رہا تھا۔ اس کےکندھےپر لٹکی ہوئی ایک پوٹلی میں دو روٹیاں تھیں آپ نےاس کو مخاطب کیا اور کہا کہ تمہارےپاس دو روٹیاں ہیں جن میں سےایک مجھےدےدو۔ اس نےانکار کر دیا۔ آپ آگےبڑھ گئےتھوڑی دیر کےبعد وہ چرواہا بھاگتا ہوا آپ کی خدمت میں حاضر ہوا معافی مانگی اور روٹی پیش کر دی۔ آپ نےاس کو نہ صرف معاف کر دیا بلکہ روحانیت سےمالامال کر دیا۔

حضرت شاہ کمال  رحمتہ اللہ علیہ    کےجلال ان کےافراد خانہ پر بھی اثرانداز ہوتےرہتےتھی۔ ایک دفعہ آپ کے چھوٹےصاحبزادےنورالدین دیوار پر گھڑ سواری کےانداز میں فروکش تھےاور دیوار کو حکم دینےلگےکہ چل پڑو دیوار متحرک ہو گئی۔حضرت شاہ کمال  رحمتہ اللہ علیہ    سارےمعاملہ کو دیکھ رہےتھے۔ آپ کو بہت غصہ آیا بچےکو پاس بلایا اور سینےپر ہاتھ پھر کر اس کی روحانیت سلب کر لی۔ اسی طرح ایک دفعہ آپ کا نام یعنی شاہ کمال‘ شاہ کمال کہہ کر کوئی شخص پکار رہا تھا۔ آپ کےبیٹےشاہ عمادالدین نےیہ صدا سنی تو ہوا میں زور لگانےلگے۔ شاہ کمال نےدیکھا تو بیٹےسےفرمانےلگےیہ کیا کر رہےہو۔ انہوں نےعرض کی کہ محترم پدرگاہی ہزاروں میل دور سمندر میں آپ کا ایک مرید کسی مشکل میں گرفتار ہےاور آپ کی امداد کا طلبگار ہےچنانچہ میں نےاس کی مدد کی اور اس کی تکلیف رفع کرنےکی کوشش کر رہا ہوں۔ آپ کو بہت غصہ آیا آپ نےفرمایا کہ کیا تمہیں لوحِ مبارک پر لکھا ہوا فیصلہ معلوم ہےجو تم اپنی کرامت دکھانےمیں مصروف ہو۔ آپ نےشاہ عماالدین کےبھی سینہ پر ہاتھ پھیر کر ان کی روحانیت سلب کر لی۔ آپ کی جلالیت سےگھبرا کر آپ کےتیسرےفرزند شاہ موسیٰ نےآپ سےدور ہو جانےکا فیصلہ کر لیا اور رات کی تاریکی میں میلوں سفر کرتےمگر صبح ہوتےہی اپنےآپ کو والد کی خانقاہ کےباہر دیکھتےہفتےگزر گئےوہ کہیں بھی نہ جاسکےاور آخرکار والد کی خدمت میں حاضر ہوئےاور اپنی کیفیت بیان کی۔ بعد میں شاہ موسیٰ کو ہی خرقہ خلافت ملا اور آپ کو کوٹ قبولہ ضلع ساہیوال خلق خدا کی رشدوہدایت کیلئےروانہ کیا گیا۔

آپ کا ایک مرید تجلی الٰہیہ کا بہت شوقین تھا مگر سالہا سال کی کوششوں کےباوجود شوقِ دیدار سے محروم رہا آخرکار حضرت نجم الکبریٰ    رحمتہ اللہ علیہ   کی خدمت میں جانےکو تیار ہوا۔ کیونکہ ان کےمتعلق مشہور تھا کہ وہ جدھر نظر بھر کر دیکھ لیتےتھےاس کی دنیا ہی بدل جایا کرتی تھی مرید اپنےپروگرام کو آخری شکل دےرہا تھا کہ آپ نےاس کو فرمایا کہ تو نجم الکبریٰ   رحمتہ اللہ علیہ    کےذریعےتجلی الٰہیہ کا متمنی ہےاس نےاثبات میں سر کو جنبش دی اور سوچنےلگا اب شاید حضرت مہربان ہو کر دیدار الٰہی سےسرفراز فرمائیں گی۔ آپ نےفرمایا اےمرید میری طرف دیکھ‘مرید نگاہوں کی تاب نہ لا سکا غش کھا کر گرا اور پھر واصل حق ہو گیا۔ لوگوں نےحیرانگی سےپوچھا کہ یہ کیا ہو گیا۔ آپ نےفرمایا یہ تجلی الٰہیہ کا متمنی تھا مگر تاب نہ لاسکا اور راہی عدم ہو گیا ہے۔

آپ کا وصال بھی عجیب انداز میں ہوا۔ آپ کئی روز سےاپنےحجرےمیں بند تھے۔ ۲۹جمادی الآخر ۹۸۱ ہجری کو آپ کےصاحبزادےشیخ عمادالدین آپ کی خبرگیری کیلئےآپ کےحجرےمیں گئے۔ آپ کو بےسدھ پایا۔ ہلایا جلایا اور جب تصدیق کر لی کہ آپ اس دنیا فانی سےرخصت ہو گئےہیں تب لوگوں کو اطلاع دی۔ مگر جب آپ کو غسل دیا جارہا تھا آپ نےاچانک آنکھیں کھولیں اور غسال ڈر کےمارےبھاگنےلگا تھا۔ آپ نےفرمایا کیا وجہ ہےکیوں دامن چھڑا کر بھاگ رہےہو۔ اس نےعرض کی حضرت آپ کی وفات کی اطلاع تو شہر بھر میں ہو چکی ہی۔ آپ نےفرمایا اچھا اور کروٹ لےکر ابدی نیند سو گئے